۵ آذر ۱۴۰۳ |۲۳ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 25, 2024
مکارم

حوزہ/آیت اللہ مکارم شیرازی نے کہا کہ تکفیری طرز تفکر کی نحوست سے کوئی بھی چاہے وہ شیعہ ہو یا اہل سنت یا مسیحیت یا کوئی اور ہر ایک اسکی زد میں ہے؛ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تکفیری تحریکوں کا مقابلہ کرنے کے لئے دیگر مذاہب میں بھی صلاحیت اور افراد موجود ہیں ہمیں انکے ساتھ ملکر اس فتنے کا مقابلہ کرنا چاہیئے اور ایک دوسرے کی صلاحیتوں کا صحیح طور پر استعمال کرنا چاہئے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق  حضرت آیت ‌الله العظمی مکارم ‌شیرازى نے «عالمی کانگریس، افراطی و تکفیری تحریکوں سے مقابلہ کا مرکزی دفتر» کے کارکنان و مسؤلین سے ملاقات میں کہا کہ جب تک تکفیر ثقافت کا خاتمہ نہیں ہوتا تب تکفیر کے اثرات ختم نہیں ہوں گے۔

انہوں نے کہا: ہم سمجھتے ہیں کہ تکفیریوں سے ثقافتی جنگ ان سے فوجی جنگ پر مقدم ہے اس خطرناک نظریے کا مقابلہ کرنے کے لئے، اس ضمن میں ثقافتی اور علمی کام کو بڑھانے اور اسکی حمایت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم تکفیریت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔

آیت اللہ مکارم شیرازی نے کہا کہ آج دنیا تکفیریوں کے بارے میں پوری طرح سے واقف ہوگئی ہے اور دنیا تکفیریوں سے نفرت کرتی ہے،اور تکفیری طرز تفکر کی سوغات سوائے قتل و غارت گری کے کچھ نہیں ہے، انھوں نے کشت و کشتار ہی ورثے میں چھوڑا ہے۔

انکا مزید کہنا تھا کہ تکفیری طرز تفکر کی نحوست سے کوئی بھی چاہے وہ شیعہ ہو یا اہل سنت یا مسیحیت یا کوئی اور ہر ایک اسکی زد میں ہے؛ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تکفیری تحریکوں کا مقابلہ کرنے کے لئے دیگر مذاہب میں بھی صلاحیت اور افراد موجود ہیں ہمیں انکے ساتھ ملکر اس فتنے کا مقابلہ کرنا چاہیئے اور ایک دوسرے کی صلاحیتوں کا صحیح طور پر استعمال کرنا چاہئے۔

آیت اللہ العظیمی مکارم شیرازی نے مزید کہا: "اب نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ تکفیریوں سے عالمی سطح پر نفرت کی وجہ سے سعودی عرب بھی شدت پسند تحریکوں کی کارکردگی سے ناخوش ہے۔"

تکفیر سے عالمی پیمانے پر نفرت کی ہوا کو فرصت کے طور پر دیکھتے ہوئے اس خطرے کا مقابلہ کرنے کا ایک قابل قدر موقع بیان کرتے ہوئے کہا: ہمیں یقین ہے کہ آہستہ آہستہ تکفیر کی بساط الٹ جائے گی اور  وہ ختم ہو جائے گی اور تکفیریوں کا مستقبل قریب میں خاتمہ یقینی ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ بے شک، ہر معاشرے اور ہر مذہب میں کچھ انتہا پسند اور افراطی لوگ موجود ہوتے ہیں جنھیں صحیح طور پر پہچاننے اور انکی سرگرمیوں پر نظر رکھنے  کی ضرورت ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .